اردو سے انگریزی کا سفر | اُردو ہم شرمندہ ہیں

Urdu to English اردو سے انگریزی

ویسے تو ہم بڑے فخر سے کہتے کہ اردو ہماری قومی زبان اور پہچان ہے لیکن ہم بذات خود اردو سے انگریزی کا سفر طے کر چکے ہیں۔ اردو سے انگریزی کے اس سفر میں مقننہ، انتظامیہ، عدلیہ، میڈیا اور ہمارے معاشرے نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ہے۔ ہمارے نظام تعلیم نے بھی اردو کی بجائے انگریزی کو اپنانے میں بھرپور کردار ادا کیا ہے۔ آئیے جانتے ہیں کہ کس طرح ہم اردو زبان پر انگریزی زیان کو ترجیح دے رہے ہیں۔

"نصاب" کو "کورس" کہا جانے لگا ہے اور اس کورس کی ساری کتابیں "بستہ" کے بجائے "بیگ" میں رکھ دی گئی ہیں۔

"ریاضی" کو "میتھس" کہا جانے لگا ہے۔

"اسلامیات" اب "اسلامک سٹڈی" بن گئی ہے۔

"انگریزی کی کتاب" اب "انگلش بُک" بن گئی ہے، اسی طرح "طبیعیات"، "فزکس" میں، "معاشیات" "اکنامکس" میں، "کیمیات" "کیمسٹری" میں اور "سماجی علوم" اب "سوشل سائنس" میں تبدیل ہو گئے ہیں۔

پہلے "طلبہ پڑھائی کرتے تھے" اب "سٹوڈنٹس سٹڈی کرنے لگے ہیں"۔

"پہاڑے" اور "گنتی" یاد کرنے والوں کی اولادیں اب "ٹیبل" اور "کاؤنٹنگ" یاد کرنے لگی ہیں۔

"استاد" کو "ٹیچر" کہا جانے لگا ہے۔

"جماعت" اب "کلاس" میں تبدیل ہو گئی ہے۔

"ہم جماعت" طلبہ اب "کلاس فیلوز" بن گئے ہیں۔

اساتذہ کے لیے "میز اور کرسیاں لگانے والے" چپراسی، اب ٹیچرز کے لیے "ٹیبل اور چئیرز سیٹ" کرنے لگے ہیں۔

"داخلوں" کی بجائے اب "ایڈمشنز" ہونے لگے ہیں۔

"امتحانات" کی بجائے اب "ایگزیمز" ہونے لگے ہیں۔

"امتحان کی تیاری" کی بجائے اب "ایگزیم پریپریشن" ہونے لگی ہے۔

"گرمیوں کی چھٹیوں" اور "سردیوں کی چھٹیوں" کی بجائے اب "سمر ویکیشنز" اور "وِنٹر ویکیشنز" ہونے لگی ہیں۔

امتحانات میں "اول، دوم اور سوم" آنے والے طلبہ اب "فرسٹ، سیکنڈ، اور تھرڈ" آنے والے سٹوڈنٹس بن گئے ہیں۔

پہلے اچھی کارکردگی پر "انعامات" ملا کرتے تھے اب "پرائز" ملنے لگے ہیں۔

بچے "تالیاں پیٹنے" کی جگہ "چیئرز" کرنے لگے ہیں۔ یہ سب کچھ سرکاری سکولوں میں ہوا ہے۔

جہاں تک پرائیویٹ سکولوں کا تعلق ہے تو زیادہ تر پرائیویٹ سکول بھی طالب علموں کو اردو نصاب کی بجائے انگریزی نصاب میں تعلیم دے رہے ہیں اور طلبہ کو جماعت میں ایک دوسرے کے ساتھ بات چیت کے لیے اردو بولنے کی بجائے انگریزی بولنا لازمی قرار دے رہے ہیں۔

صرف تعلیمی اداروں کا رونا ہی کیوں رویا جائے، ہمارے گھروں میں بھی اردو کو یتیم اولاد کی طرح ایک کونے میں پھینک دیا گیا ہے۔

"خواب گاہ" کو اب ہم نے "بیڈ روم" کا نام دے دیا ہے۔

"باورچی خانہ "کچن" بن گیا اور اس میں پڑے برتن "کراکری" کہلانے لگے ہیں۔

"غسل خانہ" اب "باتھ روم" بن گیا ہے۔

"مہمان خانہ یا بیٹھک" کو اب "ڈرائنگ روم" کہتے ہوئے فخر محسوس کیا جاتا ہے۔

مکانوں میں "پہلی منزل" کو "گراونڈ فلور" کا نام دے دیا گیا ہے اور "دوسری منزل" کو "فرسٹ فلور" کہا جانے لگا ہے۔

"دروازہ" اب "ڈور" کہلایا جانے لگا ہے۔

پہلے مہمانوں کی آمد پر "گھنٹی" بجتی تھی اب "ڈور بیل" بجنے لگی ہے۔

"کمرے" کب کے "روم" بن گئے ہیں۔

کپڑے اب "الماری" کی بجائے "وارڈروب" میں رکھے جانے لگے ہیں۔

"ابو جی" یا "ابا جان" یا "ابو جان" جیسا پیارا اور ادب سے بھرپور لفظ دقیانوسی لگنے لگا اور ہر طرف "ڈیڈی، ڈیڈ، پاپا، پپّا، پاپے" کی گردان لگ گئی حالانکہ پہلے تو پاپے (رس) صرف کھانے کے لیے ہوا کرتے تھے اور اب بھی کھائے ہی جاتے ہیں۔

اسی طرح شہد کی طرح میٹھا لفظ "امی" یا "امی جان" اب تو "ممی" یا "مام" میں تبدیل ہو گیا ہے۔

سب سے زیادہ نقصان رشتوں کی پہچان کا ہوا۔

"چچا، چچی، تایا، تائی، ماموں، ممانی، پھوپھا، پھوپھی، خالو، خالہ" سب کے سب ایک غیر ادبی اور بے احترام سے لفظ "انکل اور آنٹی" میں تبدیل ہو گئے ہیں۔

بچوں کے لیے ریڑھی لگا کر کھلونے بیچنے والے شخص سے لے کر سگے رشتہ دار تک سب انکل بن گئے ہیں۔

یعنی محمود و ایاز ایک ہی صف میں کھڑے ہو گئے ہیں۔

ساری بڑی عمر کی "عورتیں" "آنٹیاں" بن گیٸں۔

"چچا زاد، ماموں زاد، پھوپی زاد اور خالہ زاد لڑکے اور لڑکیاں سب کے سب "کزنز" میں تبدیل ہو گئے۔ نہ رشتے کی پہچان رہی اور نہ ہی جنس کی۔

گھر اور سکول میں اتنی زیادہ تبدیلیوں کے بعد بازار انگریزی کی زد سے کیسے محفوظ رہتے۔

"دکانیں" اب "شاپس" میں تبدیل ہو گئیں اور ان پر "گاہکوں" کی بجائے "کسٹمرز" آنے لگے ہیں۔

آخر کیوں نہ ہوتا کہ "دکان دار" بھی تو "سیلز مین" بن گئے جس کی وجہ سے لوگوں نے "خریداری" چھوڑ دی اور "شاپنگ" کرنے لگے۔

"سڑکیں" اب "روڈز" بن گئی ہیں۔

"کپڑے کا بازار" اب "کلاتھ مارکیٹ" بن گئی ہے، یعنی کس ڈھب سے مذکر کو مونث بنا دیا گیا ہے۔

"کریانے کی دکان" نے اب "جنرل اسٹور" کا روپ دھار لیا ہے۔

"حجام" نے "باربر" بن کر "حمام" بند کردیا ہے اور "ہیئر کٹنگ سیلون" کھول لیا ہے۔

ایسے ماحول میں دفاتر بھلا کہاں بچتے۔

پہلے ہمارا دفتر ہوتا تھا جہاں سے مہینے کے بعد تنخواہ ملا کرتی تھی، اب وہ "آفس" بن گیا اور وہاں سے تنخواہ کی بجائے "سیلری" ملنے لگی ہے۔

پہلے "دفتر کے نظام الاوقات" لکھے ہوتے تھے، اب "آفس ٹائمنگ" کا بورڈ لگ گیا ہے۔

"سود" جیسے قبیح فعل کو "انٹرسٹ" کہا جانے لگا ہے۔

"محبت" کو "لَوّ" کا نام دے کر محبت کی ساری چاشنی اور تقدس ہی چھین لیا گیا ہے۔

"اردو شاعری" کی بجائے اب ہمیں "اردو پوئٹری" پسند ہے۔

"صحافی" اب "جرنلسٹ" بن گئے اور ہم "خبروں" کی جگہ "نیوز" سننے لگے ہیں۔

"تازہ ترین خبر" اب "بریکنگ نیوز" بن گئی ہے۔

"عدالت عظمیٰ" اب "سپریم کورٹ" کہلائی جانے لگی ہے۔

"عدالت عالیہ" اب "ہائی کورٹ" کہلائی جانے لگی ہے۔

"مجلس شوریٰ" اب "پارلیمنٹ" کہلائی جانے لگی ہے۔

"صحافت" اب "جرنلزم" کہلائی جانے لگی ہے۔

کس کس کا اور کہاں کہاں کا رونا رویا جائے۔ اردو زبان کے زوال کی صرف حکومت ہی ذمہ دار نہیں بلکہ عام پاکستانی شہری نے بھی اس میں حتی المقدور حصہ لیا ہے۔

دکھ تو اس بات کا ہے کہ ہمیں اس بات کا احساس تک نہیں کہ ہم نے مغرب سے مرعوب ہو کر اپنی خوبصورت زبان اردو کا حلیہ کیسے بگاڑ لیا ہے۔ وہ الفاظ جو اردو زبان میں پہلے سے موجود ہیں اور مستعمل بھی ہیں، ان کو چھوڑ کر انگریزی زبان کے الفاظ کو استعمال کرنے میں فخر محسوس کرنے لگے ہیں۔

دوسروں کا کیا رونا روئیں، ہم خود ہی اس کے ذمہ دار ہیں۔ بہت سے اردو الفاظ کو چھوڑ کر ہم نے انگریزی الفاظ کو بولنا شروع کر دیا ہے اور یہ عمل روز بروز تیزتر ہوتا جا رہا ہے۔

روکیے، جلدی روکیے، اردو زیان کو مکمل زوال پزیر ہونے سے روکیے۔

اگر آپ مناسب سمجھیں تو قوم کو بیدار کرنے کی خاطر اس تحریر کو زیادہ سے زیادہ شیئر کریں۔

دوستوں کے ساتھ شیئر کریں
جدید تر اس سے پرانی